بڑے بھاٸی اکبر حسین کی برسی۔۔۔۔تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز)

میرے محسن، میرے مربی، میرے اُستاد، میرے بڑے بھائی اکبر حسین میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ تھے۔
بڑے بھائی اکبر حسین میرے لیے ایک عظیم رہنما تھے جنہوں نے زندگی کے ہر میدان میں میری رہنمائی کی۔


شام کے 4.30 بج رہے ہیں، ہفتے کا دن ہے اور میں ریلوے ہیڈ کوارٹر برادر فرید صاحب چیف انجینئر اوپن کے افس میں بیٹھا ہوا تھاکہ چند لمحے قبل میرے بھتیجے حسین احمد کا فون آیا کہ چاچو جان 13اپریل کو ابوجی کی برسی ہے۔ بھتیجے کی بات سن کر میرا دل بھر آیا۔ میں نےاج جاوید انور بوبک سابق چیرمین پاکستان ریلوے کی بیٹی کی شادی میں شرکت بھی کرنی تھی اس وجہ سے گھر نہ گیا میرا خیال تھا۔ آج مزدوروں کے حوالے سے تحریر لکھوں گا مگر میرے ذہن پر ایک دم بڑے بھائی کا نقش عیاں ہوگیا۔ اکبر بھائی سے میرا تعلق چھوٹے بھائی کا ہے۔ ہم چار بھائی اور ایک ہمشیرہ ہے۔ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہمشیرہ اور تینوں بھائیوں کا بہت پیار مجھے ملا۔ بالخصوص اکبر بھائی نے مجھے اپنے اکلوتے بیٹے سے بھی زیادہ محبت دی۔ 1987؁ء میں میری والدہ محترمہ اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئیں۔ اس عظیم نعمت کے میرے سے چھن جانے کے باوجود بھی والد محترم اور اکبر بھائی نے کبھی مجھے والدہ محترمہ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ اکبر بھائی(مرحوم) ایک طلسماتی شخصیت کی حامل انسان تھے۔ اگر میں یہ کہوں کہ وہ ایک آئرن مین تھے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یہ تحریر لکھنے کا شوق بلکہ پڑھنے پڑھانے کا شوق اکبر بھائی کی وجہ سے ہی میرے اندر پیدا ہوا۔اپنے گھر میں ایک خوبصورت لاہیبرری بنای ہوئی تھی جس میں کم بیش 4 ہزار کتابیں موجود ہیں۔اعلی تعلیم یافتہ تھے پاکستان کےسب سے بڑے مالیاتی ادارے اسٹیٹ بینک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھے بھائی جان اکبر حسین کی اپنے خاندان کیلئے خدمات اور قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ اللہ پاک نے ان کو چند ایسی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا جو عام طور پر لوگوں میں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ ان کے اندر حکمت اور دور اندیشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ مشکل ترین حالات میں بھی بڑی ثابت قدمی سے ہر فیصلہ کرنے کا ہنر بخوبی جانتے تھے۔ پیچیدہ اور الجھے ہوئے مسائل کو سلجھانے کا فن آپ میں وافر موجود تھا۔
زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جب ہماری گاڑی گوادر سے 200 کلومیٹر پیچھے سمندر میں گری، ہماری گاڑی تقریباً 100 کلومیٹر کی اسپیڈ سے جارہی تھی کہ راستے میں اچانک مٹی کی ایک تہہ آئی جسے ٹیونز بھی کہتے ہیں، اُس مٹی کی تہہ سے ٹکرا کر گاڑی 5 سے 6فٹ فضا میں اچھلی، ہمارے دائیں طرف پہاڑ کی کھائیاں اور بائیں طرف دُنیا کا گہرا ترین گوادر کا سمندر تھا۔ بے ساختہ منہ سے نکلا یا اللہ خیر، اس سے پہلے کہ گاڑی فضا سے واپس زمین پر آتی میں نے دل میں دُعا کی کہ دائیں طرف پہاڑوں کی طرف اُلٹ جائے، چوٹیں تو لگیں گی پر زندگی بچ جائے گی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ گاڑی فضا سے زمین پر ٹکراتی ہوئی سمندر کی طرف گر گئی لیکن سچ کہا کہ جان اللہ ربُ العزت کے ہاتھ میں ہے۔ جیسے ہی گاڑی فضا سے واپس آکر زمین کے ساتھ ٹکرائی تو گاڑی کے چاروں ٹائر پھٹ گئے اور گاڑی نیچے سمندر کی طرف گرتی ہوئی زمین کی ایک چھوٹی سی تقریباً دو فٹ کی پٹی پر پھنس گئی۔ گاڑی کے اگلے ٹائر اوپر کی طرف جھاڑیوں میں پھنس گئے اور پچھلے ٹائر اُس پٹی میں پھنس گئے، ایک طرف ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا اور ہم چار افراد اُس گاڑی میں پھنسے ہوئے تھے۔ گاڑی کا ڈرائیور آرمی کا سابق کمانڈو بھی تھا اور کمال کا انسان تھا۔ بڑے بھائی نے ڈرائیور صاحب سے کہا کہ آپ کسی طرح باہر نکلنے کی کوشش کریں اور اس بنی پر کھڑے ہوجائیں۔ ڈرائیور پلک جھپکتے ہی دروازہ کھول کر بڑے آرام سے بنی پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد بڑے بھائی نے سٹاف آفیسر کو کہا کہ آپ بھی اسی طرح باہر نکلنے کی کوشش کریں۔ سٹاف آفیسر بہت دبلے پتلے انسان تھے وہ بھی جلدی سے باہر نکل کر بنی پر کھڑے ہوگئے۔ تیز ہوا چل رہی تھی اور گاڑی بھی ان بیلنس ہورہی تھی۔ بڑے بھائی نے مجھے کہا کہ آپ کوشش کرکے بائیں طرف سے آگے جاکر ڈرائیور کی سیٹ سے باہر نکلیں، میں نے بھائی کو کہا کہ پہلے آپ باہر نکلیں کیونکہ اگر میں شہید بھی ہوگیا تو آپ میرے بچے تو پال ہی لیں گے مگر اللہ نہ کرے اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو ہماری دُنیا ویران ہوجائے گی۔ اُنہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ جلدی سے باہر نکلو اور گاڑی کا یہ عالم تھا کہ جیسے جیسے میں باہر نکل رہا تھا ایسا معلوم ہورہا تھا کہ گاڑی سمندر میں گر جائے گی۔ ڈرائیور نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے باہر نکالا اور خدا کی شانِ بے نیازی بڑے بھائی کا جسم بھاری ہے مگر اللہ ربُ العزت نے ایسی آسانی پیدا کی کہ وہ بھی اگلی سیٹ کے ذریعے باہر آگئے۔ گاڑی سڑک سے سمندر کی طرف لٹکی ہوئی تھی اور ہم چاروں ایک چھوٹی سے بنی پر کھڑے ہوئے تھے۔ کمانڈو صاحب نے ٹاہر پر پاؤں رکھا پلک جھپکتے ہی سڑک پر پہنچ گیا اس طرح باری باری ہم سب سڑک پر پہنچ گے
کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمے سے دوچار ہونا ایک ایسا تکلیف دہ لمحہ ہے جس سے جلد یا بدیر ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے۔ جب کسی انسان کے کسی بہت قریبی شخص کا انتقال ہوتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے۔ میں نے پچیس سال کی عمر میں 1987؁ء میں اپنی والدہ کو کھو دیا تھا اور 2012؁ء کو اپنے والدِ محترم کو بھی کھو دیامگر بھائیوں کی موجودگی میں مجھے یتیمی اور مسکینی کا اتنا زیادہ احساس نہ ہوا کیونکہ والدِ محترم کی کمی بھائیوں نے ہر مرحلہ پر پوری کی مگر اب اکبر بھائی کے چلے جانے کے غم نے عملاً نڈھال کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہم سب تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہیں اور جہاں سوائے صبر کے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ کہنے کو تو یہ دنیا ایک سرائے کی طرح ہی ہے کہ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ساتھ زندگی بسر کرنے والے اکثر دلوں میں گھر کر جاتے ہیں اور اُن کی عارضی یا دائمی جدائی دلوں میں گھاؤ ڈال جاتی ہے پھر اکبر بھائی جیسے محسن جو کہ ایک اچھے دوست کے روپ میں ہوں تو اُن کی جدائی کا زخم اور بھی زیادہ گہرا ہوتا ہے کہ اپنوں کی جدائی بھی اپنوں کی محبت کی طرح بے مثال ہوتی ہے۔ کسی قریبی شخص کے انتقال کے فوراً بعد زیادہ تر لوگ پہلے کچھ گھنٹوں اور دنوں تک شدید بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہوچکا ہے۔ کسی بھی چیز کے کھو جانے لیکن خاص طور پر کسی خونی رشتے کی موت کے بعد انسان غم کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ تمام مراحل اپنا وقت لیتے ہیں لہٰذا ان کو جلدی سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ ہم عموماً زیادہ دُکھی تب ہوتے ہیں جب کسی ایسے شخص کو کھو دیں جس سے آپ کا شب و روز کا تعلق ہو اور جس کے ساتھ آپ کا بچپن اور جوانی ساتھ گزری ہو۔
مرنے والے تو اس فانی دنیا سے چلے جاتے ہیں مگر اپنے چاہنے والوں کیلئے دْکھوں کی ایک فصل بو جاتے ہیں۔ اس فصل میں ہجر و کرب کے بیل بوٹے اُگتے رہتے ہیں اور جانے والوں کی یاد دلاتے ہیں لیکن یاد بھی وہی لوگ آتے ہیں جو صاحب کردار اور خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے ہی لوگوں کو زمانہ یاد رکھتا ہے، بے شک انسان کو اس کا اعلیٰ کردار ہی اعلیٰ منصب عطا کرتا ہے۔ جھکتی وہی شاخیں ہیں جن پر رنگ برنگے پھل موجود ہوتے ہیں، ویسے تو فی زمانہ ایسے لوگوں کی بھی کسی صورت کمی نہیں جو اپنے ہی ہم منصب ساتھیوں اور دوستوں کا ہر لمحہ برا ہی چاہتے ہیں، کسی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے، نہ ہی زبان سے اچھی بات کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے عمل سے کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ موت برحق ہے اور ہر کسی نے اس دنیا کے بھرے میلے کو خیرباد کہہ کر اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اچھا انسان وہی ہے جو اپنی ذات اور اپنے عمل سے کسی کو ہرگز نقصان نہ پہنچائے۔ میرے بڑے بھائی اکبر حسین جو والد محترم کی وفات کے بعد میرے لیے والد کی حیثیت رکھتے تھے، بھی ایک ایسے ہی نیک دل انسان تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے کردار اور گفتار میں اعلی ٰ درجے پر فائز کر رکھا تھا۔ وہ کم بولتے لیکن عمدہ بولتے تھے، لوگوں کے بارے میں درست اندازے لگانے میں بھی ماہر تھے۔ وہ چلے گئے لیکن اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب اور رشتہ داروں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
زندگی میں بہت سی اہم چیزوں کو بھی اہمیت نہیں دی جاتی نہ ان کے فوائد و نقصانات پر کبھی توجہ دی جاتی ہے۔ رشتہ داریاں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں اگرخونی رشتوں کی بات کی جائے، تو ان کی اہمیت و افادیت سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص بہت خوش نصیب ہوتا ہے، جسے اپنے میسر ہوتے ہیں، کیوں کہ خونی اور سگے رشتے قدرت کا انتہائی خوب صورت اور لازوال عطیہ ہوتے ہیں، جن کی قدر ہم پر لازم ہوتی ہے۔ ایسے ہی رشتوں میں ایک رشتہ ”بڑے بھائی“ کا ہوتا ہے۔ زندگی میں رشتے ناطے بہت اَن مول اور قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت بھی کسی بیش قیمت سرمائے کی مانند کی جاتی ہے، جس طرح ہم قیمتی چیزوں کا خیال رکھتے ہیں دنیا میں ماں باپ کے بعد جو سب سے قریبی گہرا اپنائیت و خلوص سے لبریز منفرد بے مثال خونی رشتہ ہے، وہ ہے بڑے بھائی کا رشتہ ہی ہے۔ بڑے بھائی کا درجہ والد جیسا ہوتا ہے، کیوں کہ وہ شفقت و محبت کے حوالے سے مثل والد ہوتا ہے، جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو ایک والدین کی طرح بہت پیار و محبت سے پروان چڑھاتا ہے، جو ان کی نیند، ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی تکالیف پر تڑپ اٹھتا ہے۔ ان کے بیما ر ہونے کی صورت میں ماں کیطرح خود بھی راتوں کو جاگتا ہے۔ ان کا خیال رکھتا ہے۔ ان پر جان نچھاور کرتا ہے اور ان کے اچھے مستقبل اور اچھی زندگی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتی ہے۔
آج میرے خاندان کے سرخیل اکبر حسین سے چھوٹے بھائی محمد علی ہیں جو کہ پی ٹی وی میں بطور ڈائریکٹر فنانس تھے اللہ تعالیٰ انکا سایہ رحمت ہمارے سروں پر تا دیر قاہم رکھے ۔
13اپریل 2021؁ء میری زندگی کا سیاہ ترین دن جب نیشنل ہسپتال میں اکبر بھائی کرونا وباء کی وجہ سے اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ یہ سننا تھا کہ ایسے محسوس ہوا کہ ہم سب ایک بار پھر یتیم ہو گئے ہیں۔ اکبر بھائی کی خبر کے بعد ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے ململ کے دوپٹے کو خاردار جھاڑیوں پر پھینک کر کھینچ لیا ہو۔ اس خبر کے سننے کے بعد میرے گھر پر گہرا سکوت چھا گیا۔ دوستو! رشتے خون کے نہیں بلکہ احساسات کے ہوتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم روزانہ اس طرح کے واقعات پڑھتے ہیں کہ محض چند ٹکوں یا زمین کے چند مرلوں کے لالچ کی خاطر بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے، انسان لالچ، ضد، انا اور خود غرضی میں انسانیت کی تمام حدیں عبور کرجاتا ہے، مگر ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بھائی کی موت کا صدمہ دوسرے بھائی کی کمر توڑ دیتا ہے۔
چند لمحوں میں تمام عزیز و اقارب، دوست و احباب اور رشتہ دار کرونا کے خوف کے باوجود اکٹھے ہو گئے۔ نہرو پارک گراؤنڈ جس میں اکبر حسین کا بچپن گزرا، اْسی گراؤنڈ میں بعد از نماز مغرب ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے پڑھائی۔ اس موقع پر قیم جماعت اسلامی امیر العظیم، امیر جماعت اسلامی لاہور ذکراللہ مجاہد، راجگڑھ کے ناظم خلیق احمد بٹ، سنت نگر کے ناظم باؤ رفیق گجر، ڈی ایس ریلوے لاہور ناصر خلیلی، ڈی جی ایم عثمان غنی اور ایم ڈی سی پیک بشارت وحید سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر تمام شرکاء پر غم و اندوہ کی کیفیت اور عجیب طرح کا سکوت طاری تھا۔ نماز جنازہ سے قبل خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ نبی رحمتﷺ کے فرمان کے مطابق اکبر حسین ایک جنتی انسان ہیں کیونکہ آج جنازہ میں شریک تمام لوگ ان کے اعلیٰ کردار کی گواہی دے رہے ہیں۔نمازجنازہ بعد از نماز مغرب ادا کی گی عشا کی نماز کے بعد تراویح تھی اور صبح یکم رمضان تھا
جماعت اسلامی کے قیم امیرالعظیم نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میرا اور اکبر حسین بھائی مرحوم کا بچپن ایک ہی محلے میں گزرا۔ وہ ایک دین دار، متحرک، محنتی اور ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ ان کی شخصیت کا یہ کرشمہ تھا کہ پورے علاقے میں انہیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2025؁ء
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com

Read Previous

Roznama yalghar

Read Next

Roznama yalghar

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular