ملتے ہیں جلد بریک کے بعد

مصطفی شامی ہمارے پیارے و لاڈلے صاحبزادے ہیں ویسے تو ہمارے. تین صاحبزادے ہیں مصطفی اسد ااور عبداللہ اور مصطفی صاحب سب بچوں میں بڑے ہیں اور ہمارے تو لااڈلے ہیں ہی لیکن ددادا جی دادی جی چاچے ۔ چااچیوں کے بھی لاڈلے ہیں مصطفی صاحب اور مصطفی صاحب جو لاہور کے معروف ترین پرائیوٹ اسکول سے تعلیم حااصل کر رہے تھے لیکن بڑے شامی صاحب یعنی مصطفی صاحب کے دادا ابو جی اور دادا ابو جی نے ااپنےلاڈلے پوتے کے لئے اسکول بدلنے کا سوج لیا اور مصطفی صاحب کے دادا ابو جی کی ااس سوچ کح خلاف ہم نے بھی ہتھیار ڈال دئے اور بزرگوں کے حکم کی تعمیل بجا لاتے وئے دل پہ پتھر رکھ دیا ااور مظفی صحب. کو کوسون میل دور اسکول میں چھوڑنے کاا ارادہ کر لیا جبکہ ہمارا ناا کوئی ارادہ تھا ااور ناا ہی فیصلہ لیکن. ہم پرانے زمانے کے خیالات کے لوگ ہیں جو بزرگوں کے فیصلے کو خندہ پیشاانی سےتسلیم کر لیتے ہیں لیکن ہماری آج کی نسل اللہ ہی اللہ بہر حال جناب مصطفی کے اسکول بدلنے کا ققصہ بھی کچھ یوں ہے کہ لاہور کی کسی تقریب میں بڑے شامی صاحب یعنی مصطفی صاحب کے دااداا ابو کو مریدکے کے ایک مشہور و معروف اسکول کے پرنسپل کسی تققریب میں ااچانک مل گئے اور بااتوں باتوں میں تعارف ہوا تو معلوم ہواکے مریدکے کے معروف اسکول چااند بااغ کے پرنسپل ہیں اور بورڈنگ اسکول ہے جو پانچویں کلاس سے بچہ لیتے ہیں اور اے لیول ااو لیول کرواتے ہیں اور بچوں کا اسکول مطلب تعلیم انکا کھانا پینا صحت عامہ کھیل سمیت ہر شعبہ موجود ہے اور جناب چاند باغ اسکول کے جو پرنسپل ہیں انھوں نے جناب مصطفی صاحب کے دادا ابو کو انکے پیارے و لاڈلے پوتے جناب مصطفی شامی کو چاند باغ اسکول میں داخلے کے لئے رضا مندی کا. بھی اظہار کروا دیا مطلب چٹ منگنی پٹ بیااہ. اور بڑے شامی صاحب کا حکم صادر ہو گیا کہ مصطفی صاحب جو کہ سااتویں میں ہیں انکو چاند باغ اسکول میں بھیج دیا گیا اور جنااب شاامی صاحب یعنی مصطفی صاحب کے دادا ابو جی نے مجھے جناب اشفاق انجم صاحب کا کالم بھی پڑھنے کے لئے بھیجا جس میں میاں اشفاق انجم جو کہ ہماارے روزنامہ پاکستان سے ہی وابستہ ہیں اور انھیں ہم بچہن سے ہی دیکھ رہے ہیں انھوں نے چاند باغ ااسکول پپہ کالم لکھا اور اس کاالم میں جناب اایثار رانا کا بھی ذکر خیر موجود تھاا جنکی قلم دوست تنظیم کا چاند ب باغ سے گہرا تعلق ہے بعد میں معلوم پڑاا کہ میاں اشفاق انجم کے صاحبزادے بھی آٹھ سال تک چاند باغ میں زیر تعلیم رہے ااور یہ بھی سن کے افسوس ہوا کہ میاں اشفاق انجم کے صحبزادے گھڑ سواری کے مقابلے میں حادثے کاا شکار ہوئے اور زخمی ہو گئے اور پھر ہم نے بہت سے دوستوں سے بھی بات چیت کی چاند باغ اسکول کے متعلق رائے جانی سب کی رائے اچھی ہی تھی لیکن چند دوستوں نے بتایا کہ اسکول کے کچھ بچوں کے ساتھ کچھ حادثات ہو چکے لیکن میں اس باات کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا ہماارے لئے تو ہماارے بزرگوں کا حکم ہی کاافی تھا اور ہم خود مصطفی صاحب کے دادا ابو کی ذاتی گاڑی پہ مصطفی صاحب کو چھوڑ کے آئے اور جس دن ہم نے مصطفی صاحب کو چاند باغ چھوڑا اس سے قبل ہماری اہلیہ اسکول کا معائنہ کر چکی تھیں اور میں بھی کچھ سال پہلے کسی تقریب میں بطور مہمان اسی اسکول مزکورہ میں ایک تقریب میں شرکت کر چکے تھے اور ہم جب مصطفی صاحب کو مریدکے ااسکول چھوڑنے گئے اور جب اسکول کے ہوسٹل میں پہنچے اور جناب مصطفی کے ہاوس ماسٹر سے ملاققت بھی ہوئی اور مصطفی صاحب کو انکے نئے ہاستل میں روم پسند کروایا اور پھر جناب مصطفی کے ہاوس ماسٹر سے ملاقات ہوئی اور گپ شپ بھی خوب لگی اور ہم نے مصطفی صاحب کے ہاوس ماسٹر جنکا نام کاشف منیر تھا اور مریدکے رہائشی تھے یہ بات بھی باتوں میں معلوم ہوئی اور جناب کاشف صاحب سے ہی ہم نے ہوسٹل کی روتین بارے پوچھا تو انھوں نے بتایاا کہ صبح بچوں کو اٹھاتے ہیں نماز پڑھاتے ہیں . قرآن شریف پڑھاتے ہیں. جاگنگ کرواتے ہیں پھر بچوں کو ناشتہ کرواتے ہیں اور اسکے علاوہ بھی دیگر معلومات لیتے رہے لیکن یہ جان کے. شدید حیرت ہوئی کہ بچوں کو ہفتے مین صرف ایک دن اہنے گھر والوں سے فون پہ بات کر سکتے ہیؑ اور اتوار کے دن والدین بچون سے ملاقات کر سکتے ہیں یقیننا باعث حیرانی تھی کہ گھر والوں سے ملنے کی پابندی فون پہ بات کرنے کی پاابندی اور تو اور انٹر نیٹ کی سہولت بھی موجود نہیں تھی اور آاج کے ااس دور میں والدین کو بچوں سے دور رکھنا ان سے بات نا کروانا یقیننا جرم عظیم ہے اور ااگر ایسے اسکول جو اہنے والدین کی بچوں سے بات نا کروتے ہوں اور وہ یورپ میں ہوں تو یقیننا ایسے اسکول دوسرے دن ہی بند ہو جائیں یقیننا ایسا قدم انسانی حقوق کی اور قوانین کیبھی خلااف ورزی ہے اور دیکھا جائے تو جیلوں میں اور ہسپتالوں میں بھی روز ملاقات ہوتی ہے لیکن یہ کیسا قانون ہے کہ جہاں والدین کو اہنے بچوں سے باات کرنے کی پابندی ہو اور حکومت کو ااور بالخصوص پنجاب کی نئی ماں جو ہیں وہہنجاب کی نئی ماں ہیں اور بچوں. سے بہت پیار کرتی ہیں تو انھیں ایسے بورڈنگ اسکولوں کے خلاف سخت ققدم اٹھانا چاہئیے جو والدین کو بچوں سے ملنے سے روکیں تو بہر حال اجازت دوستوں ملتے ہیں جلد بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا

——-

More From Author

آج کا اخبار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے